پیر، 12 ستمبر، 2011

مجھے بھی نائن الیون کی ”حقیقت“ پر شک ہے!

مجھے بھی نائن الیون کی ”حقیقت“ پر شک ہے!

دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون آغاز تھا مکمل طور پر دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے۔پھر یہ نہ صرف آغاز تھا بلکہ ان لوگوں کو الگ چھانٹ کر رکھ دینے کی کسوٹی تھی جو ایک طرف نائن الیون کے بہانے ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپانے، ایک دوسرے کا ہاتھ میں ہاتھ تھامنے اور ایک دوسرے کو مزید مضبوط کرنے کی غرض سے منظر عام پر آئے اور دوسری طرف وہ لوگ جو ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے اور ایک دوسرے کی ٹانگ گھیسٹنے کی غرض سے منظر عام پر آئے نہیں بلکہ لائے گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا اور کچھ وہ جو ذرا بولے لیکن پھر جلد ہی خاموش ہوبیٹھے۔لیکن ایک اور طاقت ابھری، جو گرچہ بکھری ہوئی تھی، منظم نہیں تھی، کسی اجتماعیت سے وابستہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود وہ بالکل اسی کی مصداق ٹھہریکہجن کو "خیر امت"کا لقب دیا گیا۔خیر کی بات کہنے والے، خیر کے کام کرنے والے اور خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد و تعاون کرنے والے۔ایک شخص کا تذکرہ "رچرڈ فالک"کا آچکا ہے اور ایک اور کا تذکرہ"رابرٹ فسک"کا کیا جا رہا ہے۔توجہ فرمائیے گا کہ یہ ان جیسے لوگوں نے کس طرح کے سوالات اٹھا ئے؟اٹھا رہے ہیں اور شاید اٹھاتے رہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جواب کون دے گا؟؟

معروف برطانوی صحافی رابرٹ فسک کا ایک آرٹیکل آ گیا جو 25/ اگست 2007ءکو برطانوی اخبار ”دی انڈیپینڈنٹ (THE INDEPENDENT) میں شائع ہوا تھا۔ آرٹیکل کا عنوان ہے، "EVEN I QUESTION" THE TRUTH ABOUT 9/11 (مجھے بھی نائن الیون کی ”حقیقت“ پر شک ہے) مضمون کے آغاز میں رابرٹ فسک کہتا ہے۔”میں جہاں کہیں بھی جاتا اور مشرق وسطیٰ پر کوئی لیکچر دیتا ہوں، ہمیشہ سامعین کے ہجوم میں سے ایک نہ ایک ”ہذیانی کیفیت میں مبتلا“ شخص اٹھ کھڑا ہوتا اور غضب ناک لہجے میں مجھ سے سوال کرتا ہے۔ ”تم کھل کر صاف صاف لفظوں میں کیوں نہیں بتاتے کہ نائن الیون کس کا کیا دھرا ہے؟ سچ بولتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو؟ کیوں نہیں بتاتے کہ بش انتظامیہ (یا سی آئی اے یا موساد یا کسی بھی اور) نے ٹوئن ٹاورز اڑا دیئے؟ تم نائن الیون کے پس پردہ چھپی اصل حقیقت لوگوں کو کیوں نہیں بتاتے؟“ ایسے ہی ایک لیکچر کے دوران ایک شخص نے یہی کچھ دہرایا۔ میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ اسکا اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے تو وہ گالیاں دیتا اور غصے میں کرسیوں کو ٹھڈے مارتا ہوا ہال سے باہر نکل گیا“۔

آگے چل کر رابرٹ فسک لکھتا ہے۔ ”لیکن میں واقعی مسلسل تبدیل ہوتے سرکاری موقف سے پریشان ہوں۔ میں ان عمومی سوالوں کا ذکر نہیں کر رہا کہ پینٹاگون پر حملہ کرنیوالے طیارے کے اجزاء، جیسے انجن وغیرہ کہاں غائب ہو گئے؟ پینسلوانیا کی فلائٹ 93 کی تحقیقات میں شامل سرکاری افسران کے منہ کیوں سی دیئے گئے ہیں؟ جب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ طیارہ (فلائٹ 93) پورے کا پورا ایک کھیت میں آگرا تو پھر اس کا ملبہ میلوں دور تک کیوں پھیلا ہوا تھا؟… میں تو ٹوئن ٹاورز کے بارے میں صرف سائنسی نقطہ نظر سے سوالات رکھتا ہوں۔ مثلاً یہ درست ہے کہ تیل زیادہ سے زیادہ 820 ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت پیدا کرتا ہے تو پھر ٹوئن ٹاورز کے وہ فولادی بیم کیسے پگھل کر ٹوٹ گرے جنہیں پگھلنے کیلئے 1480 سینٹی گریڈ کی حرارت چاہیے؟ اور یہ سب کچھ صرف آٹھ سے دس سیکنڈ کے دوران ہو گیا اور تیسرے ٹاور، ورلڈ ٹریڈ سینٹر بلڈنگ 7 یا سالمن برادرز بلڈنگ کی کہانی کیا ہے جو پانچ بجکر بیس منٹ پر، صرف 6.6 سیکنڈ کے اندر خود اپنے ہی قدموں پر ڈھیر ہوگئی؟ یہ اتنی عمدگی کے ساتھ کیونکر زمیں بوس ہوگئی جبکہ اسے کسی طیارے نے چھوا بھی نہیں؟ امریکن نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹینڈرڈ اینڈ ٹیکنالوجی سے کہا گیا تھا کہ وہ تینوں عمارتوں کی تباہی کے اسباب کا تجزیہ کرے۔ انہوں نے آج تک ورلڈ ٹریڈ سینٹر 7 کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مکینیکل انجینئرنگ کے دو ممتاز امریکی پروفیسر جو بہرحال ہذیانی اور جنونی نہیں، اس بنیاد پر قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں کہ یہ رپورٹ فراڈ اور دھوکے پر مبنی ہو سکتی ہے۔

صحافیانہ نقطہ نظر سے بھی نائن الیون کے بارے میں کئی شکوک و شبہات ہیں۔ چلیں رپورٹرز کی ان ابتدائی رپورٹس کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ انہوں نے ٹاورز کے اندر زور دار دھماکے سنے تھے، ممکن ہے وہ فولادی بیم تڑخنے کی آوازیں ہوں اور پھر یہ ابتدائی رپورٹ کہ ٹوئن ٹاورز کے نواح میں مین ہٹن کے علاقے میں، طیارے کے عملے میں شامل کسی خاتون کی لاش ملی تھی جس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ مان لیتے ہیں کہ یہ سب سنی سنائی کہانیاں ہیں۔ جیسے سی آئی اے نے شروع میں جن عرب خود کش ہائی جیکروں کی فہرست جاری کی تھی ان میں سے تین ابھی تک زندہ سلامت ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن چین سے رہ رہے ہیں لیکن اس پراسرار خط کی کہانی کیا ہے جو امریکی انتظامیہ کے مطابق مصری نڑاد ہائی جیکر عطا محمد نے اپنے ساتھیوں کو لکھا تھا اور جس میں اس نے اپنے ساتھیوں کو فجر کی نماز پڑھنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ نماز کی پوری عبارت بھی سکھائی تھی، کیا کسی مسلمان کو اسکی ضرورت ہوتی ہے؟

مجھے دہرانے دیجئے کہ میں سازشی کہانیوں پر یقین کرنے والا نہیں، لیکن دنیا کے ہر شخص کی طرح مجھے بھی پتہ چلنا چاہیے کہ نائن الیون کی اصل کہانی کیا ہے، کیونکہ اسی سے اس احمقانہ جنونی جنگ کا شعلہ بھڑکا جسے ”وار آن ٹیرر“ کا نام دیا گیا ہے اور جس نے افغانستان، عراق اور بڑی حد تک مشرق وسطیٰ میں تباہی مچا دی ہے۔ بش کے ایک مشیر کارل روو نے ایک بار کہا تھا۔ ”اب ہم ایک عظیم الشان طاقت ہیں۔ ہم اپنی حقیقتیں خود تخلیق کرتے ہیں“ درست، لیکن ہمیں بھی تو کچھ بتا دیجئے تاکہ لوگ گالیاں دینا اور کرسیوں کو ٹھڈے مارنا چھوڑ دیں۔“

یہ رابرٹ فسک کے مضمون کے اقتباسات ہیں جو صحافت کی دنیا میں ایک نام اور مقام رکھتا ہے جو مذہباً اور نسلاً انگریز ہے، جو لمبی عبا پہنتا ہے نہ سر پر سیاہ بھاری پگڑی رکھتا ہے اور جسکا جماعت اسلامی سے دور دور کا کوئی ناتا نہیں، جو طالبان اور القاعدہ سے بھی کوئی رشتہ و تعلق نہیں رکھتا لیکن جو کھلی آنکھوں سے سب کو دیکھنے اور تعصب سے پاک ذہن کو بروئے کار لانے کا سلسلہ جانتا ہے۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ”نائن الیون“ کی سازش کا تانا بانا بننے والوں میں سے کسی کا ضمیر چٹخنے لگے گا اور وہ دیوانوں کی طرح گریباں چاک کئے، دہائی دیتا ہوا مین ہٹن کی سڑکوں پر نکل آئے گا کہ ”یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔ خدا کیلئے مجھے اس آگ سے بچاو جو میرے اندر بھڑک رہی ہے“ لیکن لبرل فاشسٹ اس وقت بھی امریکی چہرے کی کالک دھونے کیلئے دلائل تراشنے لگیں گے کیونکہ ان کا رزق اسی چاکری میں لکھ دیا گیا ہے اور مردار خوری کی جبلت رکھنے والا گدھ، کبھی اپنے اندر شاہین کی خصلت پیدا نہیں کرسکتا۔

نائن الیون یعنی افغانستان کی اینٹ سے اینٹ ہلاماری گئی، عراق کو تباہ و برباد کر دیا گیا، پاکستان میں"دہشت گردوں"کے خاتمے کے لیے ڈرون حملے جاری ہیں۔اور اب عالم عرب میں "جمہوریت"کے علمبردار ڈکٹیٹرس اور تانا شاہوں کے تختے الٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ مصر،لیبیا ، شام، سوڈان اور ایران اور پھر ان گنت ممالک جہاں کے عوام ان ڈکٹیٹروں سے تنگ آچکے تھے، ان کو ،ان کی چاہت اور ان کی پسند کی حکومت فراہم کرنے کی "بھاری ذمہ داری"بیچارہ امریکہ اور اس کی قائم کردہ عالمی تنظیم اقوام متحدہ کے ذمہ داران اٹھا رہے ہیں۔اور وہ وقت دور نہیں جب کہ ایک بار پھر سے کچھ نئے چہرے چہار جانب کرسیوں کی باگ دوڑ سنبھالنے میں مصروف عمل ہو جائیں گے۔نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہی کہ کبھی عراق کی طرح صدام حسین کا حشر سامنے آئے گا تو کبھی مشرحسین کی طرح نمک حلالی کا فریضہ انجام دیا جائے گا۔اور عوام چلاتے رہیں گے:گو امریکہ گو، گو مشرف گو، گوفلاناں گو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گو ۔۔۔گو۔۔۔۔گو۔

vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...