منگل، 1 نومبر، 2011

! تیسرا پانسا

تیسرا پانسا !

کھیل کا دستور ہے کہ جب تک ایک شخص اپنی چال نہ چل لے تب تک دوسرا انتظار کرے۔شطرنج کے کھلاڑی ہوں اور وہ پیادوں کو صحیح جگہ اور صحیح موقع پر فٹ نہ کر سکیں تو سمجھئے وہ کھیل سے واقفیت نہیں رکھتے۔شطرنج میں پیادے بھی ہوتے ہیں اور انٹ،گھوڑے،ہاتھی،رانی اور بادشاہ بھی اور ہر چیز کی اپنی مخصوص اہمیت ہوتی ہے۔پیادے پہلے مرحلے میں آگے بڑھائے جاتے ہیں توکبھی گھوڑے کی ڈھائی چال سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پیادہ ہی عام طور پر سب سے آسان چارہ ہوتا ہے اور جلد ہی مات کھا جاتا ہے۔سیاست بھی شطرنج کی بساط سے کچھ کم نہیں۔سیاست میں بھی بادشاہ ہوتے ہیں جو مرتے نہیں یہاں تک کہ وہ چہار جانب سے نہ گھر جائیں اور ان کے آگے یا پیچھے ہونے کی جگہ ہی نہ بچے ، بس یہی شہ مات ہوتی ہے یعنی CHECKMATE!ملک عزیز ہند میں بھی آج کل شطرنج کے کھلاڑی بڑی جی جان اور یکسوئی کے ساتھ سیاست کی بساط پر مصروفِ عمل ہیں۔اور ہوں بھی کیوں نہیں!یہی تو رائٹ ٹائم ہے۔پھر صحیح وقت پر صحیح قدم نہ اٹھایا جائے توکھلاڑی اچھے نہیں کہلاتے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ اس بساط پر ایک طرف "رانی "ہے تودوسری طرف"بوڑھا شیر"۔رانی کے پیادے،انٹ،گائے ،بکری،گدھے،گھوڑے،ہاتھی سبھی ریوڑ میں ہانکے جا چکے ہیں اور بوڑھے شیر کے ساتھ چلنے والے بھی اس کے شانہ بشانہ بظاہر تو چل ہی رہے ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ اس ریوڑ میں آگے کون چلے اورکون کس کو ہانکے اس پر ابھی کوئی آخری رائے قائم نہیں ہوسکی ہے ، شایدیہی وجہ ہے کہ انتشار ابھر کر سامنے آرہا ہے۔

تین مہرے:

ملک عزیز کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن کیونکہ کہ ملک سے محبت رکھنے والے عام طور پر ملک کے قومی مفاد کی بجائے یہ دیکھتے آئے ہیں کہ کہاں پیسہ زیادہ ہے؟کہاں شہرت زیادہ ہے؟کہاںکرپشن زیادہ ہے،بس جہاں اور جس چیز میں یہ تینوں چیزیں مل جائیں اسی کو اختیار کرلیتے ہیں اور اس طرح وہ شہرت بھی کماتے ہیں،پیسہ بھی اور کرپشن کے جو بے پناہ فائدے ہیں ان سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک کا قومی کھیل ہاکی کھیلنے کی بجائے کرکٹ کو اہمیت دی جاتی ہے اورتقریباً ملک کے ہر گھر میں ایک نہ ایک کرکٹر ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔فل الوقت جو کھیل جاری ہے اور جس کو ہماری ذمہ دار خصوصاًالیکٹرانک میڈیا پوری تندہی کے ساتھ بنا کوئی لمحہ گنوائے لوگوں کو "حقیقت پر مبنی اطلاعات"فراہم کررہی ہے اور اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی،اسی کا نتیجہ ہے کہ ہندی اور انگلش جاننے والے تمام لوگ اس کھیل سے خوب محظوظ ہو رہے ہیںجس کا نام "کرپشن" ہے۔ اور اِسی کرپشن کے عنوان سے "کرپشن کرپشن"کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اب چونکہ یہ کھیل شطرنج کی بساط پر کھیلا جا رہا ہے لہذاپیادوں کو آگے توآنا ہی پڑے گا، ارے یہ کیا کہہ گیا! آگے آنا نہیں بلکہ لاناہی پڑے گا ۔ابھی تک دو پیادے سامنے آچکے ہیں اور تیسرے نے اپنی کمر کس لی ہے۔یہ کہتے ہوئے تو اچھا نہیں لگ رہا کہ ملک عزیز ہند میں کرپشن جو ایک اہم مدا ہے اور جس کے خاتمے کے لیے پہلے بابا رام دیو اور پھر ٹیم انا سرگرم ِ عمل ہے ان کو پیادوں سے تشبیہ دی جائے لیکن بات کھیل کی ہو رہی ہے، شطرنج کی ہو رہی ہے، لہذا شطرنج کی بساط پر پیادے تو ہونے ہی چاہئیں۔گانگریس کے جنرل سیکریڑی دگ وجے سنگھ کہ رہے تھے کہ رام دیو اور اننا ہزارے بی جے پی اور آرایس ایس کے پلان Aاور Bتھے اور اب پلان Cمیں سری سری روی شنکر ہوں گے جو اتر پردیش میں کرپشن کے خاتمہ کے لیے پلان کے تحت کام کریں گے۔ ان کی یہ کہی ہوئی بات آج سچ ثابت ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود اننا اور گڈ کری چاہتے ہیں کہ وہ اپنا علاج پاگل خانے میں کروائیں۔

ہم کیا چاہتے ہیں؟

سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کرپشن کہاں،کس صورت میں اور کن لوگوں کے درمیان پنپ رہا ہے؟کیا کرپشن کا خاتمہ یہی ہے کہ کالی دولت سوئیز بنکوں سے نکل کر ہندوستان میں لے آئی جائے۔کیا کرپشن کے رکھوالے لوک آیت اور لوک پال کے ذریعہ کرپشن پر روک لگوانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟کیا کرپشن یہ نہیں ہے کہ میڈیا جو ایک ذمہ دار ادارہ ہے وہ بغیر ثبوت کے صرف ایک میل آنے پر ان لوگوں کو بدنام کردے جو اس بدنامی کا حصہ نہیں؟پھر ان لوگوں کا کیا کہیے جو ملک کے امن و امان اور سالمیت کوطاق پر رکھ کر اپنے گھنونے کارنامے انجام دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان پر گرفت کسی نہیں جاتی۔ملک میں غربت و افلاس کی انتہا یہ ہے کہ کسان جو آپ کے کھانے کی چیزیں کاشت کرتے ہیں اور آپ کے آرام و سکون کا ذریعہ بنتے ہیں وہ بے چارے بڑے پیمانے پر خودکشی کریں اور شور و غوغا مچانے والوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے؟کیا آپ کو حوالہ اسکینڈل یا دہے؟کارگل تابوت اسکینڈل؟ پرمود مہاجن ، بنگارو لکشمن، دلیپ جودیو اور ایدو ایرپا کی کارستانیاں ؟1980کا بوفورس اسکینڈل،اسٹیمپ پیپر اسکینڈل اور معلوم نہیں کون کون سے۔سوال یہ نہیں ہے کہ آج کا موجودہ کرپشن کیسے ختم ہو۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس نظام میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کرپشن کو ختم کر سکے؟موجودہ معاشرہ اور اسی میں سے اٹھنے والے ہمارے سیاسی لیڈران ، کیا ان کے اندر برائی کو برائی کہنے کی ہمت ہے؟اگر ہے تو اُس موقع پر ریلی اور رتھ یاتراکیوںنہیں نکالتے جبکہ، معصوم لوگوں پر ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کھیلا جاتا ہے، ایک خاص طبقے کے لوگوں کے ساتھ دہرا معیاراپنایا جاتا ہے،غریب خاندانوں کے معصوم جیالوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے۔بلکہ یہ لوگ اس کے برخلاف کام کرتے ہیں،لوگوں کو اکساتے اور ورغلاتے ہیں،مسجد کہ جس کا فیصلہ کورٹ کرے گی اس کو کھلے طور پر چیلینج کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ"سومناتھ مندر کی طرز پر رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک قانون لایا جائے گا۔۔۔پارٹی یہ کام باہمی رضا مندی سے چاہتی ہے لیکن اگر یہ ایسے یا عدالت کے حکم سے نہ ہوا تو تازہ قانون لایا جاسکتا ہے"۔یہ سب کیا ہے؟یہ باتیں کس زمرے میں آتی ہیں؟کیوں ان لوگوں پر جو ملک کی سالمیت اور امن کو برہم کرنے پر تلے ہیں گرفتار نہیں کیا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ آوازیں ہیں،وہ لوگ ہیں،جن کو ایک خاص گروہ بہت عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہے؟لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا آپ بھی ان لوگوں کی عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہیں؟آپ کیا چاہتے ہیں؟"ہم"کیا چاہتے ہیں؟یہ "ہم"مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدے کی بنیاد پرہونا چاہیے۔عقیدہ ان لوگوں کا جو چاہتے ہیں کہ غلط کا کبھی ساتھ نہ دیا جائے!

تیسرا پانسا:

پانسے کچھ بھی پھینکے جائیں اور پیادے کہیں بھی اپنی چالیں چلیں لیکن کھیل تو کھیل ہی ہے۔ اس حقیقت کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے کہ کھیل میں جیت یا ہار حقیقی جیت یا ہار نہیں ہوا کرتی۔جب لوگ کسی مہم کے حق میں یا اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک انسانوں کا ایک گروہ بھی ہو تو ایسا نہیں کہ ہر شخص غلط ہی ہو یا ہر شخص صحیح۔لیکن وقت یہ ثابت کردیتا ہے کہ غلط لوگوں کا ساتھ دینے والے کون تھے اور صحیح لوگوں کے حواری کون تھے۔سری سری روی شنکربھی اب اس میدان میں اترنے کے لیے تیار ہو چکے ہیں لیکن ان کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ رام دیو اور اننا سے زیادہ لوگ ان کے عقیدت مند ہیں اور رہے ہیں ۔ اس میدان میں جن لوگوں کے ساتھ وہ اترے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اِس سے ان کی ساکھ خراب ہو جائے اور عقیدت مندوں کے عقیدے میں کمزوری نمایاں ہو نے لگے۔کیونکہ کیچڑ کے اوپر توسب نے کنول کھلتے دیکھے ہیں لیکن کیچڑ کی بدبو برداشت کرنا سب کے بس کی بات نہیں!۔

vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...