منگل، 27 اکتوبر، 2015

مسائل میں اضافہ ! لاعلمی،بے حوصلگی وپست ہمتی


مسائل میں اضافہ ! لاعلمی،بے حوصلگی وپست ہمتی
        ہر آزاد جمہوریہ ملک میں شہریوں کو کچھ ایسے حقوق حاصل ہوتے ہیں جن سے ان کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ حقوق شہریوں کے لیے اتنے ضروری ہوتے ہیں کہ ان کے بغیر وہ اپنی شخصیت کی تعمیر نہیں کرسکتے۔ہمارے ملک کے دستور میں شہریوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی رو سے ہر شہری خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی قانون کی نگاہ میں برابر ہے۔ مذہب ، ذات پات، جنس، رنگ یا جائے پیدائش کی بنا پر کسی کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شہری کو آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہے۔ ساتھی ہی ہر شہری کو سرکاری ملازمتیں نیز بڑے سے بڑا عہدہ بلا امتیاز وتفریق حاصل کرنے کا حق ہے۔ دستور نے صدیوں سے چلے آرہے چھوت چھات کے رواج کوجرم قرار دیا ہے ۔ اوراقلیتوں کو مذہبی وتمدنی آزادی دی ہے۔ انہیں اس بات کا بھی حق دیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ اسکول اور تعلیمی ادارے قائم کریں۔ اپنی تہذیب یا تمدن ،زبان اور رسم الخط(script) کو قائم وبرقرار رکھیں اورانہیں ترقی دیں۔ ساتھ ہی مخصوص مذہب کی تبلیغ اور مذہبی مراسم اداکرسکیں۔

        دستورہندنے ہندوستانی عوام کو سر چشمہ اقتدار مانا ہے۔اس کو صاف اور کھلے ہوئے لفظوں میں دستور کی تمہید میں بیان کیا گیا ہے۔ دستور نے ہندوستان کو ایک بااقتدار ، خود مختار عوامی جمہوریہ(Sovereign Democratic Republic) مانا ہے۔نیز بلاتفریق و امتیاز ،مذہب و ملت، جنس و رنگ اور ذات پات ہر بالغ ہندوستانی کو حکومت کی تشکیل میں ووٹ کا حق دیا ہے۔اِنہیں ووٹوں سے مرکز اور ریاستوں میں حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ دستور کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ملک میں غیر مذہبی جمہوریت قائم کی ہے۔یعنی اسٹیٹ کا کوئی مذہب نہیں ہے اور ہر مذہب کو یکساں حیثیت حاصل ہے۔دوسرے ہندوستان کے تمام باشندے خواہ وہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں ایک مشترک شہریت میں منسلک کردیئے گئے ہیں۔ہر ہندوستانی شہری کو اسٹیٹ سے متمتع اور اس سے فائدہ اٹھانے کا پوراحق ہے۔ مذہب یا ذات پات یا کسی خاص علاقہ یا ریاست میں پیدا ہونے کی بنا پر کسی ہندوستانی کو شہریت کے کسی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس کے ساتھ کسی قسم کی تفریق کی جاسکتی ہے۔

        آپ جانتے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، یعنی حق مساوات تمام شہریوں کو برابر سے ملا ہے۔دفعہ۴۱کہتی ہے: مملکت کسی شخص کو ہندوستان کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی۔ساتھ ہی اس بات کا بھی خوب اچھی طرح تذکرہ کیا گیا ہے کہ مذہب، نسل،ذات یا جنس یا مقام پیدائش کی بنا پر امتیاز نہیں کیا جائے گا،یعنی اس کی مکمل ممانعت ہے۔وہیں دفعہ:۵۱میں بتایا گیا ہے (۱) مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس یا مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی۔(۲) کوئی شہری محض مذہب۔ نسل۔ ذات۔جنس۔ مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بنا پر۔۔۔(الف) دکانوں۔عام ریستوران۔ہوٹلوں یا عام تفریح گاہوں میں داخلہ کے لیے ، یا(ب) کلی یا جزوی طور سے مملکتی فنڈ سے قائم یا خلایق عامہ کے استعمال کے لیے کنووں،تالابون،اشنان گھاٹوں،سڑکوں اور عام آمدورفت کے مقامات کے استعمال کے ناقابل نہ ہوگا یا اس پر کوئی ذمہ داری یا پابندی یا شرط نہ ہوگی۔ساتھ ہی (۳) اس آئین میں کوئی امر اس میں مانع نہ ہوگا کہ مملکت عورتوں اور بچوں کے لیے کوئی خاص توضیع کرے۔

        ہندوستان کے آئین میں شہریوں کے لیے حق آزادی کا بھی بہت تفصیل سے تذکرہ ہے۔دفعہ:۹۱۔ (۱)کی روشنی میں ، تمام شہریوں کو حق حاصل ہے:(الف) آزادی تقریر و آزادی اظہار کا؛(ب) امن پسندانہ طریقہ سے اور بغیر ہتھیاروں کے جمع ہونے کا؛(ج) انجمنیں یا یونین قائم کرنے کا؛(د) ہندوستان کے سارے علاقہ میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے کا؛(ہ) ہندوستان کے علاقہ کے کسی حصہ میں بود و باش کرنے اور بس جانے کا ، اور(ز)کسی بھی پیشہ کے اختیار کرنے یا کسی کام کاج ، تجارت یا کاروبار کے چلانے کا۔آئین میں حق آزادی کے الف تاز حقوق کی تشریحات بھی کی گئی ہیں، جن کی روشنی میں کوئی بھی شہری اِن حقوق کو حاصلکر سکتا ہے۔دفعہ۹۱،۱کے ذیلی فقرہ (الف) کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کوئی امر کسی موجودہ قانون کے نفاذ کو متاثر نہ کرے گا۔ نہ مملکت کے کسی قانون کے بنانے میں مانع ہوگا جس حد تک ایسا قانون مذکورہ ذیلی فقرہ کے عطا کیے ہوئے حق کے استعمال پر ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ اور سا لمیت۔مملکت کی سلامتی۔ غیر مملکتوں سے دوستانہ تعلقات۔امن عامہ ،شائستگی یا اخلاق عامہ کی اغراض کے لیے یا توہین عدالت، ازالہ حیثیت عرفی یا کسی جرم کے لیے اکسانے کے تعلق سے معقول پابندیاں عائد کرے۔وہیں مذکورہ فقرہ کے ذیلی فقرہ (ب) میں کوئی امر کسی موجودہ قانون کے نفاذ کو متاثر نہ کرے گا نہ وہ مملکت کے کسی قانون بنانے میں مانع ہوگا۔ جس حد تک وہ ذیلی فقرہ مذکور کے عطا کیے ہوئے حق کے استعمال پر ہندوستان کے اقتدار اعلیٰ اور سا لمیت یا امن عامہ کی اغراض کے لیے معقول پابندیاں عائد کرے، ۔۔۔۔وغیرہ۔

        مذکورہ بالا گفتگو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں قانونی اعتبار سے شہریوں کو بے شمار تحفظات حاصل ہیں ۔اس کے باوجود ملک میں اقلیتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ جس طرح جارحانہ معاملات ایک کے بعد ایک سامنے آرہے ہیںوہ حد درجہ تشویشناک ہیں۔گزشتہ دنوں ملک میں شہری کیا کھائیں اور کیا نہیں،اس کو لے کر جھوٹ پر مبنی ایک افسوس ناک واقعہ سامنے آیا ۔جس کے بعد ملک کے ایک بڑے طبقے نے متشدد افراد کے خلاف کاروائی کی مانگ کی۔لیکن افسوس کہ یہ واقعہ و کاروائی جاری ہی تھی کہ ہریانہ کے فرید آباد علاقہ میں دلت کنبہ کو زندہ جلانے ڈالنے کا معاملہ سامنے آگیا۔یہاں بھی عوام نے افسوس ظاہر کیا،مظاہرے کیے اور مجرمین کو سزا دلوانے کی مانگ کی۔لیکن انسانیت بری طرح تب شرمسار ہوئی جبکہ واقعہ سے متعلق الیکٹرانک میڈیا کوانٹرویو دیتے ہوئے مرکزی وزیر وی ۔کے۔ سنگھ نے کہا کہ، کوئی کتے پر پتھر پھینک دے تو سرکار کیا کرے؟بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر اور کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے سنگھ کی طرف سے کتے کا لفظ استعمال کرنے کو بیہودہ اور نفرت آمیز بتایا ۔ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ زندہ جلادئیے گئے دو بچوں کی موت کا موازنہ ایک کتے کو پتھر مارے جانے سے کرنا،اس سے زیادہ بیہودہ اور نفرت آمیز اور کیا ہو سکتا ہے۔یہ حکومت کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔نیز مودی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسال قبل ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نے بھی رائٹرس کو دیئے گئے انٹرویو میں ایسے ہی الفاظ استعمال کیے تھے۔تب انہوں نے کہا تھا کہ اگر کوئی کتے کا پلا بھی گاڑی کے پہیہ کے نیچے آجاتا ہے تو اس کے لیے بھی حساس ہونے کی ضرورت ہے۔ان کا یہ تبصرہ گجرات کے 2002مسلم کش فسادات کے تناظر میں تھا۔منیش تیواری کی گفتگو کے پس منظر میں یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ برسراقتدار پارٹی کا ایک بڑا طبقہ اقلیتوں اور سماج کے کمزور طبقات کے تعلق سے کیا نظریہ رکھتی ہے۔ایک جانب حدر درجہ نفرت کافروغ ہے تو دوسری جانب منووادی نظام کا اثر ہے،جو دماغوں میں رچ بس چکا ہے ۔لہذا مرکزی وزیر داخلہ،راج ناتھ سنگھ کو بھی سوچنا چاہیے کہ جو نفرت پیدا کی جا چکی ہے،اور جو نظام ایک بار پھر قائم کیے جانے کی سعی و جہد ہے،اس میں موجود خرابیوں کو صرف ڈانٹنے ڈپٹنے اور اظہار ناراضگی سے حل نہیں کیا جاسکتا ہے۔ہاں یہ ممکن ہے کہ بیانات دیتے وقت ذرا احتیاط برت لی جائے۔وہیں یہ بھی حقیقت ہے فکرو نظریہ انسان کے عمل میں لازماً جھلکتا ہے،اس کے باوجود کہ وہ کتنی ہی احتیاط برتے،اور اسے کتنی ہی نصیحتیں کیوں نہ کی جائیں!

        حالات کے پس منظر میں جہاں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعصب سے پاک نظام فراہم کرے وہیں ہمارے ، آپ کے اور عام شہریوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ دستورمیں موجود دفعات کو سمجھیں اورآئینی طریقہ سے مسائل کے حل کی منظم سعی و جہد کریں۔اس پہلو سے دو کام بہت اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں۔ایک )فرد واحد کی واقفیت ۔دو)متاثرہ یا غیر متاثرہ باشندگان ملک کے مقامی سطح پر قانونی رہنمائی کے پلیٹ فارم کا قیام۔حقیقت یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے آئین میںبہت حد تک مسائل سے نمٹنے کا اہتمام کیاگیا ہے، اس کے باوجود لاعلمی،بے حوصلگی اورپست ہمتی مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے جا رہے ہیں!


vvvvvvv

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...