تعلیم کا مقصد لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانا ہے۔لیکن یہ سوال بھی لازماً اٹھنا چاہیے کہ "حقیقت "کیا ہے؟حقیقت وہ ہے جس کی بنیادیں حددرجہ پختہ ہیں۔جس کی اساس کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی البتہ زماں و مکاں کے قیود سے بالاتراضافہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔برخلاف اس کے ناقص تعلیم وہ ہے جس کی بنیادیں حد درجہ کمزور ہوں اور عموماً مفروضوں پر منحصر ہو۔پھر یہ ایسے مفروضے ہوں جن کی نہ کوئی سند ہو اور نہ ہی کوئی بنیادہے۔
ڈاکٹر ذاکر حسین ؒ کے تعلیمی افکار:
ڈاکٹر ذاکرحسینؒ کی شخصیت کے کئی پہلو نمایا ں ہیں مثلاً ماہر معاشیات ،ماہر سیاست اور ماہر تعلیم ۔ڈاکٹر صاحب نے تعلیم کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا معلومات اکٹھا کرنا دوسرا تجزیہ اور تحقیق کے ذریعے ان معلومات کا جوہر اخذ کرنا اور تیسرا اس جوہر سے ایک اخلاقی شخصیت کی تعمیر کرنا۔ اگر یہ تینوں عملی طور پر کسی انسان میں ظاہر ہوں تو وہ انسان تعلیم یافتہ کہاجاسکتاہے۔ تحصیل علم کا مقصد تلاش حق ہے اور تلاش حق کا مدعا خدمت خلق ہے۔تلاش حق میں بھی تین منزلیں ہیں۔ خودبینی ،جہاں بینی اور خدا بینی۔ ذاکر صاحب کے نزدیک یہ سب خوبیاں جس انسان میں یکجا ہوں اس میں حق وانصاف ، رحم و کرم ، حمیت وہمدردی ، صدق و صفا او رمحبت ومروت کی صفات خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں اگر ایک تعلیم یافتہ انسان میں یہ قدریں نہ ہوں تو اس کی ڈگریاں بے کارہیں۔ذاکر حسین کے تعلیمی فلسفے کا ایک اہم جزیہ ہے کہ وہ فرد کی تعلیم کو تعلیم نہیں سمجھتے ان کے نزدیک اصلی اور ابتدائی چیزمعاشرہ ہے۔ انسان کے افکار و نظریاتک کا ارتقاءجو تعلیم کا اصل مقصد ہے سماج کے بنا ممکن ہی نہیں ہے۔ایک فرد واحد جاندار تو ہوسکتا ہے لیکن اگر وہ ایک بامہذب سماج کا حصہ نہ ہو تو وہ مکمل انسان نہیں کہلائے گا۔کیونکہ انسان کی امتیازی خصوصیت اس کا پختہ ذہن ہے لہذا یہ ارتقائی مراحل سماج کے تصّور کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ انسان کے افکار،نظریات،تصورات اور عقائد معاشرہ کے کسی نہ کسی دوسرے انسان کے ذہن کی پیداوار ہے ۔ ذہنی زندگی میں"تو"نہ ہو"میں" کا وجود بھی نہ ہو۔ اس لئے ذہن کی بالیدگی کے لیے سماج کا وجود لازم ہے ۔لہذا ایک بہتر سماج کے قیام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی تعلیم کا نظام درست کرے۔ سماج جس طرح کا بیج بچوں کے ذہن میں بوئے گا اس قسم کا پھل پائے گا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ببول بوئے اور گلاب کے پھول اگنے لگیں۔ذاکر صاحب کے نزدیک استاد کا بہت بڑا مقام ہے جو سماج کا ایک لازمی حصہ ہے۔ استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کو کسی طرح انسان کی ذہنی زندگی سے روشناس کرادے۔ افلاطون نے اس ضمن میں ایک بڑے کام کی بات بتائی ہے :تعلیم وتربیت کے کاموں کو یوں سمجھنا چاہئے کہ معلم و طلبہ سب کے سب ایک گہرے اندھیرے غار میں پڑے ہوئے ہیں کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں استاد کا کام صرف یہ ہے کہ شاگردوں کا رخ اس طرف کردے جہاں غار میں روشنی کی ایک جھلک نظر آرہی ہے ، استاد اپنے شاگردوں کو بصیرت نہیں بخش رہاہے شاگردخود آنکھ رکھتے ہیں ، استاد کا کا م صرف یہ ہدایت ہے کہ صرف اس طرف دیکھو جس طرف سے روشنی آرہی ہے ۔استاد کا کام صرف ایک receiver کا ہوتاہے ۔غرض ذاکر صاحب ذہن کی بیداری کو تعلیم سے تعبیر کرتے ہیں("تعلیمی خطبات "،از ڈاکٹر ذاکرحسین،مکتبہ جامعہ، نئی دہلی)۔
ڈاکٹر ذاکر حسین نے افلاطون سے لے کر انگلستان کے فرانسس بیکن ، امریکہ کے ڈیوی ، جرمنی کے کرنزیٹز شیلر مار شر اور دیگر اکابرین تعلیم سے بہت کچھ سیکھا اور گاندھی جی کے تجربات وخیالات کو لے کر اسلامی فلسفے کی کسوٹی پر پرکھا اور اپنے فکر و تحقیق کے سانچے میں ڈھالا ، پھر اس سانچے کو ہندوستان کے کروڑوں باشندوں کی مختلف ضروریات، احساسات ، تہذیبی رجحانات اور ذہنی امتیازات کے مدنظر ان میں ضروری ترمیمات کرکے خود اپنا فلسفہ تعلیم تیار کیا۔ اسی لگن اور محنت کودیکھتے ہوئے گاندھی جی نے اپنے بنیادی تعلیم کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 1937ءمیں جو کمیٹی بنائی اس کا سربراہ ذاکر صاحب کو مقرر کیا۔ ذاکر صاحب کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کا بنایا ہوا تعلیمی دستور العمل یعنی بنیادی تعلیم کا نظریہ ملک میں رائج کردیا جائے۔ اس اسکیم کے پیچھے مسلسل دس سال(1937-47)تک جان توڑ کوشش کی گئی کمیٹیاں بنیں ،کئی قراردادیں اور اور تجویزیں منظور ہوئیں لیکن ملک نے اس کو قبولیت کا شرف نہیں بخشا ‘ کبھی سیاست رکاوٹ بنی ، کبھی حکومت سے نااتفاقی رہی ، کبھی عہدیداروں کی ہٹ دھرمی اور کبھی ماہرین تعلیم کی آپسی کشمکش کی وجہ سے یہ اسکیم شرمندہ تعبیر نہ ہوسکی! (جاری)۔ ۔ ۔ ۔
v v v v v v v
08.08.2016
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں