منگل، 27 ستمبر، 2016

ناکامیوں اور عدم اعتماد کی کیفیت سے باہر نکلیے

فی الوقت ملک اندرون و بیرون خانہ بڑے چیلنجز سے نبرد آزما ہے۔اور بڑے ممالک عموماً ان حالات سے وقتاً فوقتاً دوچار ہوتے بھی رہتے ہیں۔اس لحاظ سے جن مسائل سے ملک دوچار ہے وہ نئے نہیں ہیں اور نہ ہی ایسے حالات ہیں جس کامشاہدہ آج سے پہلے نہ کیا گیاہو۔وجہ یہ ہے کہ دنیا نے جس وقت سے خود کو حد بندیوں میں محدود کیا ہے،تبھی سے نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوا ہے،نوسامراجیت،قوم پرستی،سرمایہ دارانہ نظام،ثقافتی سامراجیت،گلوبلائزیشن، انسانی کج دشمنی ، دوسرے ممالک پر اثر انداز ہونے یا یا دباﺅ ڈالنے کی پالیسی اورحقوق انسانی اور سا لمیت کے نام پر انتہا پسندی کے فروغ میںاضافہ سامنے آیا ہے۔یہ وہ مسائل ہے ہیں جنہیں بیرونی مسائل کے ذیل میں درج کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب وہ اندرونی مسائل ہیں جن کی موجودگی میں ملک اندر سے کمزور ہوتا رہتا ہے،اس کے باوجود غور و فکر کرنے والے اُن مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔بلکہ بعض اوقات مسائل کے اضافہ میں خاموشی اختیار کرتے ہوئے انہیں خاموش حمایت کا اشارہ بھی دیا جاتا ہے۔ان مسائل میں وطن عزیز میں آزادی سے لے کر اب تک جو سب سے بڑا مسئلہ سامنے آیا ہے وہ اشتعال پر مبنی قوم پرستی کا مسئلہ ہے۔جس کے چلتے ملک کے مختلف مذاہب ، طبقات اور گروہ کو تقسیم کرنے کا کام منظم انداز میں سامنے آیا ہے۔اس کے علاوہ غربت و افلاس،جہالت، بے روزگاری، صحت عامہ کے مسائل وغیرہ ہیں،جنہیںآزادی سے لے کر اب تک ستر سال گزرنے کے باوجوداں پر قابو پانے میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ بنیادی مسائل جیسے ٹوائلٹ اور صفائی ستھرائی تک کا منظم و پختہ نظام نہ ہم قائم نہیں کر سکے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے کو ئی سنجیدگی نظر آتی ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں گزشتہ دو سالوں سے اس پر کچھ توجہ دے رہی ہیں۔جس کے مظاہر یہ ہیں کہ پروجیکٹ تیار کیے جا رہے ہیں، نفاذ کی کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اگر آپ اس پورے عملکا اعتدال پر مبنی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ نہ یہ کوششیں مستحکم بنیادوں پر جاری ہیں اور نہ ہی اس جانب خصوصی توجہ ہے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ بے تحاشہ دولت خرچ ہو رہی ہے اور وسائل کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے ،اس کے باوجود ،معاملہ وہیں کا وہیں ٹھہر ا ہوا نظر آتا ہے۔
ملک اور سماج کے حالات اور مزاج کو سمجھنے کا ایک دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وطن عزیز میں جو مرکزی و ریاستی حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں ان کی بنیاد یں کیا ہیں؟اس پہلو سے ملک کے طول و عرض میں مختلف ماڈل سامنے آتے ہیں۔اس کے باوجود ان میں کچھ باتیں یکساں ہیں۔جیسے مذاہب کی تقسیم،طبقات و گروہ اٹھک پٹخ،ذات پات کا نظام ،اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش اور خوابوں کی خرید و فروخت۔وہیں جن چیزوں کی کمی محسوس ہوتی ہے ان میں جذبہ ہمدردی جذبہ انسانیت کی عدم موجودگی،عدل و انصاف پر مبنی نظام کی خواہش کا نہ پایا جانا، معاشی پالیسی میں تضاد،افکار و نظریات پر مبنی نظام کا نہ ہونا اور ہمہ جہت ترقی جو ملک اور اہل ملک کی مختلف جہات کو اوپر اٹھانے میں معاون و مددگار ہے اس کی قلت۔یہ وہ بنیادی اور بڑی خامیاں ہیں جو وطن عزیز کی سیاست و اقتدار میں شامل افراد کی کمیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔وہیں یہ بات جو عموماً کہی جاتی ہے، صحیح نہیں ہے کہ اہل سیاست بھی سماج ہی کا حصہ ہیںیعنی جس فکر و نظر اور جذبہ سے عاری سماج کے افراد ہیں ان ہی کی نمائندگی اہل سیاست بھی کرتے ہیں۔وجہ یہ ہے کہ جن بنیادو ں پر اور جس طریقہ کار کے ذریعہ اہل سیاست منتخب ہوتے ہیںوہ خود ناقص ہے خامیوں سے بھر پور ہے ۔لہذا کمیاں و خامیاں طریقہ انتخاب میں ہے نہ کہ شہریوں میں۔اس کی تین مثالیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔جن ریاستوں کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں وہ ملک کی راجدھانی سے قریب ترہیں۔پہلی مثال خود راجدھانی دہلی کی ریاستی حکومت اور اس کی پالیسیاں ہیں،جہاں انتخاب کے وقت بے شمار وعدے اور دعوے کیے گئے تھے،لیکن خود اُس پارٹی کی اندرونی و بیرونی کشمکش نے وعدوں اور دعوں کو ابھی تک پورا نہیں ہونے دیا ہے۔اس کے باوجود جس بڑی اکثریت کے ساتھ انہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی یعنی 70میں سے 63ایم ایل اے،وہ کامیابی انہیں مطمئن کیے ہوئے ہے کہ ریاستی حکومت کے پانچ سال تو انہیں بنا کسی بڑے دباﺅ کے پورے ہونے میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔لہذا مسائل جو جاری ہیں انہیں مزید بڑے کینوس پر مسائل کی شکل میں پیش کیا جائے تاکہ اپنی ناکامیاں چھپائی جا سکیں۔دوسری ریاست اترپردیش ہے ،یہاں بھی دہلی جیسے ہی حالات تھے جس کے نتیجہ میں موجودہ ریاستی حکومت کو 404ایم ایل اے والی اسمبلی میں 229سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔اس کے باوجود ریاست اترپردیش میں بے شمار مسائل ہیں جہاں تقریباًپانچ سال مکمل ہونے کے باوجود قابو نہیں پا یا جا سکا ہے ۔ان میں لاءاینڈ آڈر کی ناکامی اور ریاست میں ہونے والے چھوٹے بڑے فسادات ،کمزور و مظلوم طبقات پر ظلم و زیادتیاں،اقلیتوں کو نظر انداز کیا جانا، غربت و افلاس، بے روزگاری جیسے بے شمار مسائل جیسے پانچ سال پہلے تھے تقریباً وہی حالات آج بھی ہیں۔تیسری مثال ریاست بہار ہے جہاں حالیہ دنوں ہوئے آرجے ڈی اور جے ڈی یو اور کانگریس اتحاد کو 243سیٹوں میں سے 178سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور حکومت جاری ہے۔اس کے باوجود یہ اتحاد ایک بار پھر اندرون خانہ کمزور ہوتا نظر آرہا ہے۔وجہ وہی پرانی ہے کہ یہاں بھی ہوس اور اخلاقی جوابدہی سے عاری حکومت تشکیل دی گئی ہے۔اور اب اِس کے اشارات بھی ملنے شروع ہو گئے ہیںکہ جن لوگوں نے نظریاتی بنیادوں پر اور ذاتی رنجش کی وجہ سے ایک سیاسی پارٹی سے دوریاں اختیار کی تھیں آج ایک بار پھر وہ قربت محسوس کر رہے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ وہ نتیش کمار جنہوں نے چند روز قبل آر ایس ایس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اور اس کے لیے مہم چلانے کی بات بھی کہی تھی، اب وہی نتیش کمار آر ایس ایس کے سربراہ مفکرین میں شمار کیے جانے والے پنڈت دین دیال اپادھیائے کی صدی پر ہونے والی تقریبات کے لیے بنائے جانے والی کمیٹی میں بحیثیت رکن شامل ہیں۔سیاسی گلیاروں میں ان کی شرکت کو لے کر بی جے پی کے قریب جانے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔اس پس منظر میں وہ تمام دعوہ کھوکھلے ثابت ہو جاتے ہیں جو کیے گئے تھے اور جو ابھی تک منظر عام پر موجود ہیں۔وہیں ریاست کے اندرونی مسائل پر نظر ڈالی جائے تو ریاست بہار حددرجہ غربت و افلاس میں مبتلا ہے، صحت عامہ کے مسائل سے بڑے پیمانہ پر متاثر ہے، اعلیٰ تعلیمی اداروں کی قلت ہے،بے روزگاری ایک عام مسئلہ ہے،نتیجہ میںریاست کا نوجوان مختلف ریاستوں میں اپنے آبائی وطن ،اہل خانہ اور خاندان سے دور ،دربدر بھٹکنے پر مجبور ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں جب کہ حقیقی مسائل پر روشنی ڈالی جاتی ہے،عموماً ایک بڑا طبقہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔محسوس یہی ہوتا ہے کہ جب اس قدر مسائل ہیں اور حکومتیں بھی بے توجہی کا رویہّ اختیار کیے ہوئے ہیں،تو مسائل کیسے حل ہوں گے؟اور اگر وہ حل نہیں ہوتے تو ہم کب تک عدم اطمینان کی زندگی بسر کریں گے؟اس موقع پر دو طرح کے افراد و گروہ سامنے آتے ہیں۔ایک جو حالات کا مسائل کا مقابلہ کرنے سے پہلے ہی ہاتھ پیر چھوڑ کے بیٹھ جاتے ہیں تو دوسرے وہ جو قبل از وقت مسائل پر نظر رکھے ہوئے تھے،اس کے لیے کسی حد تک سرگرم عمل بھی تھے،اب مزید منظم و منصوبہ بند انداز میں اور نئے حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے نئے لائحہ عمل کے ساتھ میدان عمل میں مزید قوت اور سرگرمی کے ساتھ میدان عمل میں اترتے ہیں۔اس مضمون کے پڑھنے والے ہر قاری کو اسی دوسرے گروہ میں شامل ہونا چاہیے،امید ہے کہ مسائل بھی حل ہوں گے،ناکامیوں اور عدم اعتماد کی کیفیت سے بھی باہر نکلیں گے،اور قوم و ملت اور ملک و اہل ملک سب ہی کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔ یہی وقت کا تقاضہ ہے اور یہی حوصلہ مند اور شجاعت پسند لوگوں کی زندہ مثال ہونی چاہیے !

کوئی تبصرے نہیں:

جمہوریت کس کروٹ اپنا رخ بدلتی ہے؟ مدر آف ڈیموکریسی میں الیکشن 2024 کا آغاز ہوا چاہتا ہے !!!   محمد آصف اقبال، نئی دہلی بھارت میں اس...